غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی طرف سے حماس کو ختم کرنے کے لیے مسلط کی گئی جنگ کے جلو میں فلسطینی وزیر اعظم محمد اشتیہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جنگ بندی، امداد کی ترسیل اور پٹی میں مواصلات کی بحالی حکومت کا پہلا ہدف ہے۔
انھوں نے ہفتے کے روز العربیہ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں مزید کہا کہ حماس تحریک فلسطین کے سیاسی منظر نامے کا حصہ ہے۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ غزہ کی پٹی 30 سال سے فلسطینی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے غزہ کی پٹی کو بین الاقوامی امن فوج یا اقوام متحدہ کی نگرانی میں دینے کی مخالفت کی۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ غزہ کی پٹی یا مغربی کنارے کے لیے کوئی جزوی حل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت فوری طور پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی اور غزہ کی پٹی میں امداد کی ترسیل کا مطالبہ کرتی ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کی رہائی کے معاملے میں ان کی حکومت کا کردار ہے۔
جنگ بندی، امداد کی فراہمی اور مواصلات کی بحالی اولین مقصد ہیں۔
نیا مرحلہ
قابل ذکر ہے کہ اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ میں حماس کے ساتھ اپنی جنگ کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے، جب کہ زمینی افواج نے فلسطینی پٹی میں اپنی کارروائیاں جاری رکھی ہیں۔ فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ فوج زمینی کارروائیاں بھی کررہی ہے۔
اسرائیلی چیف آف جنرل اسٹاف ہرزی ہیلیوی نے مزید کہا کہ فوج غزہ میں داخل کیے بغیر حماس کو تباہ نہیں کیا جاسکتا۔
قبل ازیں اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں انٹرنیٹ اور تمام مواصلاتی ذائع معطل کر دیے تھے۔
مواصلاتی بندش کی وجہ سے غزہ کی پٹی جمعے کی رات سے بیرونی دنیا سے الگ تھلگ ہو چکی ہے۔