اسرائیل سنہ 2017ء سے غزہ کی پٹی میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ بننے والے یحییٰ سنوار کو 7 اکتوبر کے حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتا ہے۔
یحییٰ السنوار کا شمار حماس کے ان سرکردہ رہ نماؤں میں ہوتا ہے جو انتہائی چالاکی کے ساتھ اپنے ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے السنوار کو نشانہ بنانے کے لیے کئی بار حملے کیے۔ بعض دفعہ ان کی موت کا بھی دعویٰ کیا گیا مگر وہ پھر بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔
سنہ 2011ء میں خاص طور پر سپاہی گیلاد شالیت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے میں اسرائیلی انٹیلی جنس کا اس وقت خیال تھا کہ یحییٰ سنوار اب کوئی خطرہ نہیں رہے کیونکہ انہوں نے اسرائیلی جیلوں میں تقریباً 23 سال گذارے ہیں۔
اسرائیلی اخبار’گلوبز‘ کے مطابق انٹیلی جنس اداروں کا خیال تھا کہ شاید السنوار اب اپنی یادداشتیں لکھنے کے لیے خود کو وقف کر دیں ”
لیکن السنوار جسے اپنی رہائی سے قبل چار بار عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی قید میں محض وقت ہی پاس نہیں کیا بلکہ اس دوران اس نے عبرانی زبان سیکھنے، اسرائیلی میڈیا کو فالو کرنے اور اہم اسرائیلی شخصیات جیسے میناچم بیگن اور یتزحاک رابن کی شائع کردہ تمام کتابوں کا بھی مطالعہ کیا۔
سابق اور موجودہ اسرائیلی انٹیلی جنس افسران نے السنوار کو سمجھنے کا اعتراف کیا، جس نے یہ تاثر دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ لڑنا نہیں چاہتے۔ حماس صرف اس بات کو یقینی بنانے میں دلچسپی رکھتی ہے کہ غزہ کے شہریوں کو اسرائیلی ورک پرمٹ اور مزید اقتصادی مراعات ملیں۔
ممکنہ طور پر حماس کے منصوبوں کے ایک حصے کے طور پرتحریک نے دراصل پچھلے دو سالوں میں اسرائیل کے خلاف کوئی بھی فوجی کارروائی کرنے سے گریز کیا ہے، جس سے اسرائیل کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ وہ بالآخر حماس کو قابو کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے، یہاں تک کہ قسام بریگیڈز نے اعلانیہ مشقیں بھی کیں مگر یہ ظاہر نہیں کیا کہ حماس کسی بڑی جنگ کی تیاری کررہی ہے۔
اسرائیل نے بہت سے اشاروں کو نظر انداز کیا، جن میں السنوار کی جانب سے غزہ کے ساتھ اسرائیلی سرحدی دیوار کو توڑنے کی خواہش کا اعلان بھی شامل ہے۔ جب امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی کے خلاف مظاہروں میں اضافہ ہوا تو السنوار نے غزہ کی باڑ توڑنے کی دھمکی دی تھی۔ اسرائیلی انٹیلی جنس کا خیال ہے کہ 7 اکتوبر کے حملے کی منصوبہ بندی کے لیے کم از کم ایک سال درکار تھا۔
یحییٰ السنوار سنہ1960ء کی دہائی کے اوائل میں غزہ کی پٹی کے اندر ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ وہ متحرک طالب علم رہ نما بنے اور حماس کے بانی الشیخ احمد یاسین جنہیں اسرائیل نے سنہ 2004ء میں قتل کردیا تھا کے قریبی حلقوں میں شامل ہوگئے۔
جب 1980ء کی دہائی کے اواخر میں فلسطینی بغاوت کے دوران حماس ایک مذہبی تحریک سے مسلح گروپ میں تبدیل ہوئی تو اسرائیلی حکام کے مطابق السنوار نے اس کا عسکری ونگ بنانے میں مدد کی۔
حماس کے حکام کے مطابق انہوں نے ایک داخلی سکیورٹی یونٹ بھی قائم کیا جو مخبروں کا شکار کرتا تھا۔
سنہ 1988ء میں اسے گرفتار کیا گیا اور بعد میں اسرائیلی فوجیوں کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیا گیا اور چار بار عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
’وال اسٹریٹ جرنل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ میں حماس کے رہ نما کے طور پر السنوار حماس کے پیچیدہ اور خفیہ قیادت کے ڈھانچے کا حصہ ہیں جس میں اس کا عسکری ونگ اور اس کا سیاسی بازو شامل ہے۔
سنہ 2017ء میں خالد مشعل کی جگہ اسماعیل ھنیہ نے حماس کے سیاسی شعبے کی زمام کار ہاتھ میں لی تو یحییٰ السنوار کو انہوں نے غزہ کی پٹی میں حماس کا لیڈر مقرر کیا۔
تاہم اس قدم کو حماس کی زیادہ شدت پسند تبدیلی کا اشارہ سمجھا جاتا تھا۔ خاص طور پر چونکہ اسرائیلی سکیورٹی حکام سنوار کو سب سے زیادہ شدت پسند ارکان میں سے ایک سمجھتے ہیں۔ السنوار کو حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام اور سیاسی شعبے کے درمیان ایک پل سمجھا جاتا ہے۔
السنوار 1960ء کی دہائی کے اوائل میں غزہ کی پٹی کے اندر ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ وہ طلبا سیاست میں سر گرم رہے اور حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے لگے۔ شیخ احمد یاسین کو اسرائیل نے 2004 میں ایک فضائی حملے میں شہید کردیا تھا۔
جیل کے سابق اہلکار اور سابق فوجی حکام کے مطابق قید کے دوران ایک موقع پراسرائیلی ڈاکٹروں نے اس کی جان بچائی جب وہ دماغی بیماری میں مبتلا ہوئے ایک اسرائیلی ہسپتال میں اس کی سرجری کی گئی۔
جب حماس نے 2006 میں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کو اغوا کیا تو سنوار کو اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات کے دوران زیر غور لایا گیا جس کے بعد شالیت کی رہائی کے بدلے 1,027 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ ان میں السنوار بھی شامل تھے۔
گیرشون باسکن جو اس وقت اسرائیلی انٹیلی جنس سروس اور حماس کے درمیان رابطوں اور مذاکرات کار کے طور پر کام کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ السنوار کو رہا کرنے پر اسرائیلی حلقوں میں شدید تحفظات پائے جاتے تھے۔
لیکن رہائی کے بعد السنوار تیزی سے حماس کی صفوں میں شامل ہو گئے اور حماس تحریک کے ارکان نے انہیں 2017 میں غزہ کی قیادت کے لیے منتخب کیا۔
وال اسٹریٹ جرنل سے بات کرنے والے حماس کے عہدیداروں کے مطابق حماس کے دیگر رہ نماؤں نے بھی اراکین کو یقین دلایا کہ غزہ کے صدر کے طور پر ان کا انتخاب جماعت کو اندرونی اور بیرونی تشدد کے نئے دور میں نہیں گھسیٹے گا۔